حضرت صدرالدین عارف
والادت
حضرت صدرالدین 631ھ میں ملتان میں پیدا ہوئے آپ کی والدہ ماجدہ کا نام بی بی رشید ہ بانوتھا جو شیخ احمد غوت کی صاحبزادی تھیں آپ کی پیدائش پر بڑی خوشی کا اظہار کیاگیا
پرورش اورتربیت
آپ کی پرورش اورتعلیم وتربیت اپنے والد گرامی کی نگرانی میں ہوئی آپ نے ظاہری اورباطنی علم انہی سے حاصل کیا آپ تھوڑے ہی عرصہ میں علم وفضل میں یگانہ روزگار ہوگئے سب سے پہلے آپ نے قرآن مجید حفظ کیا کہاجاتا ہے کہ دینی علوم میں بیشتر علما آپ کے ہم پلہ بھی نہ تھے
لقب عارف
آپ شیخ صدرالدین عارف کے نام سے مشہورتھے اس لقب سے مشہور ہونے کی یہ وجہ تھی کہ جب آپ تلاوت قرآن مجید کرتے یا کلام مجید ختم فرماتے تو معروفت وحکمت کے نئے نئے اسرارورموز آپ پر آشکار ہوتے
کرامات
صاحب خزینتہ الا صفیا لکھتے ہیں کہ شیخ احمدنام ایک سوداگرقندھار میں رہتاتھا بہت خوبصورت نوجوان تھا اسے شراب کی اتنی لت پڑ چکی تھی کہ بے پئے ایک لحظہ زندگی بسر کرنا اس کے بس کی بات نہ تھی اتفاق سے شیخ احمد اپنا اسباب تجارت ملتان لے آیا اوربازار میں ایک شانداردکان کرایہ لے کر گاروبار شروع کردیا کام خوب چل نکلا شہر بھر میں اس کی شہرت ہوگئی خوب کمایا اورخوب کھایا ا س کی مے خوارگی کا کسی نے حضرت شیخ العارف سے بھی ذکرکردیا اورعرض کی حضورشہر کے تمام بے فکر اس کے ہاں جمع رہتے ہیں اوردن بھرشراب کادور چلتا رہتا ہے آپ نے کچھ دیر تامل کے بعد فرمایا جب میں بازار سے گزروں مجھے وہ نوجوان دکھانا بہر حال میرے شہر میں وہ پردیسی ہے اس سے الجھنا اوربگڑنا بھی مناسب نہیں
بات رفت گذشت ہوگئی ایک دن اتفاق سے حضور حضرت غوث العلمین قدس سرہ العزیز کے مقبرہ کی زیارت کو تشریف لئے جاتے تھے جب اس کی دکان سے گزرے تو غلام نے عرض کی حضور یہی وہ سوداگرہے جس کی مے خوارگی کا چرچا حضرت تک پہنچا تھاشیخ نے مڑکر دیکھا تو ایک بانگا ،رنگیلا ،سجیلا نوجوان مسند پربیٹھا پایا اس کی جبین سے سعادت کے آثار ظاہر تھے آپ نے خادم سے فرمایا جس طرح بھی ممکن ہواس نوجوان کو میرے پاس لے آ حضرت زیارت سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ خادم نے شیخ احمد کو لاکر پیش کردیا حضرت اسے اپنے ہمرہ حجرہ شریفہ میں لے آئے گرمی کاموسم تھا خدام نے شربت کا پیالہ پیش کیا آپ نے اس میں سے ایک دو گھونٹ نوش فرمائے اورپھر وہ پیالہ شیخ احمد کی طرف بڑھایا اور فرمایا بنوش
اس کے پیتے ہی نوجوان کا باطن انوارالہی سے جگمگا اٹھا غفلت وبدمستی سے آنکھیں کھل گئیں شیخ کے سراپا پر نظرڈالی توکچھ اورہی کیفیت نظر آئی وہاں شخ عارف کہاں تھے معرفت الہی کا ایک نورتھا جوزمین سے اٹھ اٹھ کرآسمان سے باتیں کررہاتھا شیخ احمد وحدت کے نشہ سے مخمور ہوکر شیخ کے قدموں میں گرے اوربیعت کی التماس کی حضرت نے اسے اٹھا کرگلے سے لگایا اورسہروردیہ طریقہ کے مطابق اپنے حلقہ بیعت میں شامل کرلیا شیخ احمد خانقاہ غوثیہ سے واپس روانہ ہوا مگر اس حال میں کہ آنکھیں پرآب تھیں نظرقدموں سے اٹھنے کانام نہ لیتی تھی بازار سے گزرے دکان پرپہنچے تو یاروں کاجگھٹا لگ رہا تھا انہوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا قسم قسم کے چٹکلے پھینکے گدگدیاں نکالیں شراب کا پیالہ پیش کیا لیکن یہاں تو کایا ہی پلٹ چکی تھی شیخ احمد نے تحسرانگیز نظرسے اس مجمع کو دیکھا اورفرمایا دوستو معاف کیجئے میں اب ایسی شراب پی کر آرہا ہوں جس کا ایک گھونٹ ہمیشہ کیلئے مست بنادیتا ہے اگرتم بھی ایسے کیف وسرورسے لطف اندوز ہونا چاہتے ہوتو حضرت شیخ العارف کے قدموں کی خاک پاک کو سرمہ بطیرت بناءو اس میخانہ سے کوئی رنبادہ الست شاکی نہیں جب مجھ سے غریب الوطن پریہ عنایت ہوئی ہے تو تم جو ا س دات مقدس کے ہم وطن ہو محروم کیسے رہ سکتے ہو
مفتی غلامسرورلاہوری مولف خزینتہ الاصفیا فرماتے ہیں کہ شیخ احمد اسی وقت دکان کا تمام سامان واسباب گاڑیوں پر لدواکرخانقاہ معلی پر لے آیا اورفقراومساکین میں بانٹ اس طریق سے تجرید اورتفرید کی زندگی شروع کی کہ سات سال صرف ایک تہبند میں گزار دئیے جس مست شباب کی پہر پہر کے بعد پوشاک بدلتی تھی اب اس تن نازنین پرسوائے ایک کہنہ چادر کے اورکوئی پارچہ نظر نہیں آتا تھا سات سردیاں اورگرمیاں اسی ایک تہبند میں گزرگئی
محمد قاسم مولف تاریخ فرشتہ لکھتا ہے کہ شیخ احمد کاجذبہ عشق یہاں تک پہنچا کہ انہیں جہاں اوراہل جہاں کی خبر تک نہ رہی مدہوشی کے عالم میں انہیں ادائیگی فراءض کا احساس تک بھی نہ ہوتا ملتان کے علمائے ظاہر نے انہیں مجبور کیا کہ نماز ادا کریں کیونکہ اگروہ نماز نہیں پڑھیں گے ان پر لفظ مسلمان کا اطلاق نہیں ہوسکے گا آپ نے فرمایا صاحبو میں معذور ہوں نمازادا کرنے کی قدرت مجھ میں نہیں ہے لیکن جب ان کاصرا ربڑھ گیا فرمایا اچھا اگرمجبور کرتے ہوتو تمہاری خاطر نماز پڑھ لیتاہوں لیکن سورۃ فاتحہ نہیں پڑھوں گا
حضرات علماء نے کہا بغیر فاتحہ نماز کیونکر درست ہوسکتی ہے آپ نے فکر مند ہوکرفرمایا اچھا سورۃ فاتحہ بھی پڑھ لیتا ہوں لیکن ایاک نعبد وایاک نستعین پڑھنے پراصرارنہ کیجئے علما نے برہم ہوکر کہا
آپ کیسی باتیں کرتے ہیں کیا اس آیتہ کریمہ کے بغیر فاتحہ درست ہوسکتی ہے آپ کوفاتحہ بھی پڑھنی ہوگئی اوریہ آیت بھی انجام کا ر علما کے اصرار پرآپ مصلی پرنماز پڑھنے کیلئے آکھڑے ہوئے اورنماز شروع کی لیکن جب ایا ک نعبد پرپہنچے ان کے ہربن موسے خون جاری ہوگیا یہاں تک کہ آپ کی تمام پوشاک خون سے تربسر ہوگئی آپ نے نماز توڑ ڈالی اور فرمایا بزرگو اب میں زن خاءضہ کے حکم میں ہوں مجھ پرنماز فرض ہی نہیں رہی
حضرت مولاناحسام الدین شیخ الاسلام عارف باللہ کے جلیل القدر خلیفہ تھے اورسالہا سال حضرت کی صحبت میں بسر کرچکے تھے فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حضرت خلاصتہ المشاءخ صدرالملتہ والدین کے ہمراہ شیخ الا سلام بہا الملتہ والدین قدس سرہ کے روضہ اطہر کی زیارت کو گیا حضرت عارف باللہ جب زیارت سے فارغ ہوکرباہر تشریف لائے میرے دل میں خیال گزرا کہ اگر ایک ٹکڑا زمین کا اپنی قبر کیلئے مانگ لوں تو کیا عجب ہے کہ شیخ کبیر کی ہمسائیگی کے طفیل مجھے عذاب دوزخ سے نجات مل جائے مجرداس خیال کے گزرنے کے شیخ المشاءخ صدر الملتہ والدین نے میری طرف دیکھا اورمسکرا کرفرمایا
مولاناحسام الدین زمین ازبرائے مزار سمادریغ نیست اما حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم زمینے پاک برائے مزار شمادرخطہ بدایوں اشارت فرمودہ است البتہ خاک شمادرانجا آسودہ خواہدشد
شیخ المشاءخ حضرت محبوب الہی دہلوی کابیان ہے کہ جب قضا وقدرمولاناحسام الدین کو بدایوں لے گئے توایک رات انہوں نے خواب میں جناب رسالت مآ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ ایک جگہ بیٹھے وضو فرمارہے ہیں صبح کو اس مقام پر گئے تو یہ دیکھ کر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ زمین وضو کے پانی سے بھیگی ہوئی ہے اوروضو کانشان ظاہر ہے حضرت مولانا نے وصیت کی کہ مجھے اس مقام پر دفن کیا جائے چنانچہ بعد وفات دفن کئے گئے
وصال
شیخ صدر الدین کاسنہ وفات سفیتہ الا ولیا میں 23ذالحجہ684ھ مذکورہے صاحب مراۃ الا سرار کا بیان ہے کہ وفات کے وقت آپ کی عمر انتھر سال کی تھی صاحب خزینتہ الا صفیا نے آپ کا سنہ وفات 666بتایا ہے
خلفا حضرت شیخ صدرالدین کے جلیل القدر خلفا میں شیخ جمال خنداں ،شیخ حسام الدین ملتانی،مولانا علاء الدین خجندی،شیخ احمد بن محمد قتدھاری معروف بہ شیخ احمدمعشوق اورشیخ صلاح الدین درویش مشہور ہیں
مزار اقدس
آپ کامزار اقدس آپ کے والد گرامی حضرات بہا الدین زکریا ملتانی کے پہلو میں ہے مزار مبارک پرایک عالی شان گنبد بناہواہے
والادت
حضرت صدرالدین 631ھ میں ملتان میں پیدا ہوئے آپ کی والدہ ماجدہ کا نام بی بی رشید ہ بانوتھا جو شیخ احمد غوت کی صاحبزادی تھیں آپ کی پیدائش پر بڑی خوشی کا اظہار کیاگیا
پرورش اورتربیت
آپ کی پرورش اورتعلیم وتربیت اپنے والد گرامی کی نگرانی میں ہوئی آپ نے ظاہری اورباطنی علم انہی سے حاصل کیا آپ تھوڑے ہی عرصہ میں علم وفضل میں یگانہ روزگار ہوگئے سب سے پہلے آپ نے قرآن مجید حفظ کیا کہاجاتا ہے کہ دینی علوم میں بیشتر علما آپ کے ہم پلہ بھی نہ تھے
لقب عارف
آپ شیخ صدرالدین عارف کے نام سے مشہورتھے اس لقب سے مشہور ہونے کی یہ وجہ تھی کہ جب آپ تلاوت قرآن مجید کرتے یا کلام مجید ختم فرماتے تو معروفت وحکمت کے نئے نئے اسرارورموز آپ پر آشکار ہوتے
کرامات
صاحب خزینتہ الا صفیا لکھتے ہیں کہ شیخ احمدنام ایک سوداگرقندھار میں رہتاتھا بہت خوبصورت نوجوان تھا اسے شراب کی اتنی لت پڑ چکی تھی کہ بے پئے ایک لحظہ زندگی بسر کرنا اس کے بس کی بات نہ تھی اتفاق سے شیخ احمد اپنا اسباب تجارت ملتان لے آیا اوربازار میں ایک شانداردکان کرایہ لے کر گاروبار شروع کردیا کام خوب چل نکلا شہر بھر میں اس کی شہرت ہوگئی خوب کمایا اورخوب کھایا ا س کی مے خوارگی کا کسی نے حضرت شیخ العارف سے بھی ذکرکردیا اورعرض کی حضورشہر کے تمام بے فکر اس کے ہاں جمع رہتے ہیں اوردن بھرشراب کادور چلتا رہتا ہے آپ نے کچھ دیر تامل کے بعد فرمایا جب میں بازار سے گزروں مجھے وہ نوجوان دکھانا بہر حال میرے شہر میں وہ پردیسی ہے اس سے الجھنا اوربگڑنا بھی مناسب نہیں
بات رفت گذشت ہوگئی ایک دن اتفاق سے حضور حضرت غوث العلمین قدس سرہ العزیز کے مقبرہ کی زیارت کو تشریف لئے جاتے تھے جب اس کی دکان سے گزرے تو غلام نے عرض کی حضور یہی وہ سوداگرہے جس کی مے خوارگی کا چرچا حضرت تک پہنچا تھاشیخ نے مڑکر دیکھا تو ایک بانگا ،رنگیلا ،سجیلا نوجوان مسند پربیٹھا پایا اس کی جبین سے سعادت کے آثار ظاہر تھے آپ نے خادم سے فرمایا جس طرح بھی ممکن ہواس نوجوان کو میرے پاس لے آ حضرت زیارت سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ خادم نے شیخ احمد کو لاکر پیش کردیا حضرت اسے اپنے ہمرہ حجرہ شریفہ میں لے آئے گرمی کاموسم تھا خدام نے شربت کا پیالہ پیش کیا آپ نے اس میں سے ایک دو گھونٹ نوش فرمائے اورپھر وہ پیالہ شیخ احمد کی طرف بڑھایا اور فرمایا بنوش
اس کے پیتے ہی نوجوان کا باطن انوارالہی سے جگمگا اٹھا غفلت وبدمستی سے آنکھیں کھل گئیں شیخ کے سراپا پر نظرڈالی توکچھ اورہی کیفیت نظر آئی وہاں شخ عارف کہاں تھے معرفت الہی کا ایک نورتھا جوزمین سے اٹھ اٹھ کرآسمان سے باتیں کررہاتھا شیخ احمد وحدت کے نشہ سے مخمور ہوکر شیخ کے قدموں میں گرے اوربیعت کی التماس کی حضرت نے اسے اٹھا کرگلے سے لگایا اورسہروردیہ طریقہ کے مطابق اپنے حلقہ بیعت میں شامل کرلیا شیخ احمد خانقاہ غوثیہ سے واپس روانہ ہوا مگر اس حال میں کہ آنکھیں پرآب تھیں نظرقدموں سے اٹھنے کانام نہ لیتی تھی بازار سے گزرے دکان پرپہنچے تو یاروں کاجگھٹا لگ رہا تھا انہوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا قسم قسم کے چٹکلے پھینکے گدگدیاں نکالیں شراب کا پیالہ پیش کیا لیکن یہاں تو کایا ہی پلٹ چکی تھی شیخ احمد نے تحسرانگیز نظرسے اس مجمع کو دیکھا اورفرمایا دوستو معاف کیجئے میں اب ایسی شراب پی کر آرہا ہوں جس کا ایک گھونٹ ہمیشہ کیلئے مست بنادیتا ہے اگرتم بھی ایسے کیف وسرورسے لطف اندوز ہونا چاہتے ہوتو حضرت شیخ العارف کے قدموں کی خاک پاک کو سرمہ بطیرت بناءو اس میخانہ سے کوئی رنبادہ الست شاکی نہیں جب مجھ سے غریب الوطن پریہ عنایت ہوئی ہے تو تم جو ا س دات مقدس کے ہم وطن ہو محروم کیسے رہ سکتے ہو
مفتی غلامسرورلاہوری مولف خزینتہ الاصفیا فرماتے ہیں کہ شیخ احمد اسی وقت دکان کا تمام سامان واسباب گاڑیوں پر لدواکرخانقاہ معلی پر لے آیا اورفقراومساکین میں بانٹ اس طریق سے تجرید اورتفرید کی زندگی شروع کی کہ سات سال صرف ایک تہبند میں گزار دئیے جس مست شباب کی پہر پہر کے بعد پوشاک بدلتی تھی اب اس تن نازنین پرسوائے ایک کہنہ چادر کے اورکوئی پارچہ نظر نہیں آتا تھا سات سردیاں اورگرمیاں اسی ایک تہبند میں گزرگئی
محمد قاسم مولف تاریخ فرشتہ لکھتا ہے کہ شیخ احمد کاجذبہ عشق یہاں تک پہنچا کہ انہیں جہاں اوراہل جہاں کی خبر تک نہ رہی مدہوشی کے عالم میں انہیں ادائیگی فراءض کا احساس تک بھی نہ ہوتا ملتان کے علمائے ظاہر نے انہیں مجبور کیا کہ نماز ادا کریں کیونکہ اگروہ نماز نہیں پڑھیں گے ان پر لفظ مسلمان کا اطلاق نہیں ہوسکے گا آپ نے فرمایا صاحبو میں معذور ہوں نمازادا کرنے کی قدرت مجھ میں نہیں ہے لیکن جب ان کاصرا ربڑھ گیا فرمایا اچھا اگرمجبور کرتے ہوتو تمہاری خاطر نماز پڑھ لیتاہوں لیکن سورۃ فاتحہ نہیں پڑھوں گا
حضرات علماء نے کہا بغیر فاتحہ نماز کیونکر درست ہوسکتی ہے آپ نے فکر مند ہوکرفرمایا اچھا سورۃ فاتحہ بھی پڑھ لیتا ہوں لیکن ایاک نعبد وایاک نستعین پڑھنے پراصرارنہ کیجئے علما نے برہم ہوکر کہا
آپ کیسی باتیں کرتے ہیں کیا اس آیتہ کریمہ کے بغیر فاتحہ درست ہوسکتی ہے آپ کوفاتحہ بھی پڑھنی ہوگئی اوریہ آیت بھی انجام کا ر علما کے اصرار پرآپ مصلی پرنماز پڑھنے کیلئے آکھڑے ہوئے اورنماز شروع کی لیکن جب ایا ک نعبد پرپہنچے ان کے ہربن موسے خون جاری ہوگیا یہاں تک کہ آپ کی تمام پوشاک خون سے تربسر ہوگئی آپ نے نماز توڑ ڈالی اور فرمایا بزرگو اب میں زن خاءضہ کے حکم میں ہوں مجھ پرنماز فرض ہی نہیں رہی
حضرت مولاناحسام الدین شیخ الاسلام عارف باللہ کے جلیل القدر خلیفہ تھے اورسالہا سال حضرت کی صحبت میں بسر کرچکے تھے فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حضرت خلاصتہ المشاءخ صدرالملتہ والدین کے ہمراہ شیخ الا سلام بہا الملتہ والدین قدس سرہ کے روضہ اطہر کی زیارت کو گیا حضرت عارف باللہ جب زیارت سے فارغ ہوکرباہر تشریف لائے میرے دل میں خیال گزرا کہ اگر ایک ٹکڑا زمین کا اپنی قبر کیلئے مانگ لوں تو کیا عجب ہے کہ شیخ کبیر کی ہمسائیگی کے طفیل مجھے عذاب دوزخ سے نجات مل جائے مجرداس خیال کے گزرنے کے شیخ المشاءخ صدر الملتہ والدین نے میری طرف دیکھا اورمسکرا کرفرمایا
مولاناحسام الدین زمین ازبرائے مزار سمادریغ نیست اما حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم زمینے پاک برائے مزار شمادرخطہ بدایوں اشارت فرمودہ است البتہ خاک شمادرانجا آسودہ خواہدشد
شیخ المشاءخ حضرت محبوب الہی دہلوی کابیان ہے کہ جب قضا وقدرمولاناحسام الدین کو بدایوں لے گئے توایک رات انہوں نے خواب میں جناب رسالت مآ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ ایک جگہ بیٹھے وضو فرمارہے ہیں صبح کو اس مقام پر گئے تو یہ دیکھ کر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ زمین وضو کے پانی سے بھیگی ہوئی ہے اوروضو کانشان ظاہر ہے حضرت مولانا نے وصیت کی کہ مجھے اس مقام پر دفن کیا جائے چنانچہ بعد وفات دفن کئے گئے
وصال
شیخ صدر الدین کاسنہ وفات سفیتہ الا ولیا میں 23ذالحجہ684ھ مذکورہے صاحب مراۃ الا سرار کا بیان ہے کہ وفات کے وقت آپ کی عمر انتھر سال کی تھی صاحب خزینتہ الا صفیا نے آپ کا سنہ وفات 666بتایا ہے
خلفا حضرت شیخ صدرالدین کے جلیل القدر خلفا میں شیخ جمال خنداں ،شیخ حسام الدین ملتانی،مولانا علاء الدین خجندی،شیخ احمد بن محمد قتدھاری معروف بہ شیخ احمدمعشوق اورشیخ صلاح الدین درویش مشہور ہیں
مزار اقدس
آپ کامزار اقدس آپ کے والد گرامی حضرات بہا الدین زکریا ملتانی کے پہلو میں ہے مزار مبارک پرایک عالی شان گنبد بناہواہے