Hazrat Kabir Ul Din Shahid Dola Darai
Complete Details
حضرت سید کبیرالدین شاہد ولہ دریائی
روایت ہے کہ حضرت سید کبیرالدین شاہد ولہ دریائی رحمتہ اللہ علیہ بغداد میں پیدا ہوئے اس وقت ہندوپاک میں اکبری عہد تھا ،والدین چھوٹی عمر میں انتقال کرگئے اوربعض اوباش لوگوں نے آپ کو کسی ہندو کے ہاتھ فروخت کردیاجو آپ سے سخت کام لیتا تھا مگر آخر میں وہ آپ کی خدمت سے متاثر ہوا اورانہیں آزاد کردیا
ایک اورروایت میں ہے کہ حضرت شاہ ولہ رحمتہ اللہ علیہ لودھی خاندان کے ایک صاحب طریقت بزرگ کے فرزند ار جمند تھے آپ کے طفولیت میں ہی آپ کے والد گرامی وصال فرماگئے رشتہ داروں اورعزیزوں نے معصوم شاہ ولہ رحمتہ اللہ علیہ پرکوئی توجہ نہ دی ،پڑوسی کبھی کبھی اپنابچاکچا کھانا آپ کو دے دیا کرتے تھے
بیعت
آزاد ہونے کے بعد شاہد ولہ رحمتہ اللہ علیہ سید سرمست سیال کوٹی کی خدمت میں حاضر ہوئے جواپنے وقت کے جلیل القدر صوفیا میں سے تھے اورایک عرصے تک ان کی خدمت میں رہ کر ان کے دست حق پرست پربیعت کی
سلسلہ چشتیہ سے تعلق
حضرت شاہ دولہ رحمتہ اللہ علیہ کاسلسلہ طریقت سہروریہ خاندان سے ہے لیکن انہوں نے مشاءخ چشتیہ سے بھی فیوض باطنیہ حاصل کئے ہیں صاحب معارج الولایت کابیان ہے کہ میں حسن ابدال جاتے ہوئے شاہ دولہ رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت شاہ مراقبے میں تھے اورقوال مشاءخ چشت کی تعریف میں کچھ گارہے تھے جب آپ نے مراقبے سے سراٹھایاتو میری طرف متوجہ ہوئے اورمجھے مٹھائی دی میں نے عرض کیا کہ میں اس ظاہری نعمت کاطالب نہیں ہوں مجھے باطنی نعمتوں سے سرفراز فرمائیے ہنستے ہوئے فرمایا تم یہ تو لووہ نعمت بھی تمہیں ملے گی پھرمجھے اپنی عنایت سے ظاہری اورباطنی نعمتوں سے سرفراز فرمایا
اولاد کیلئے دعا
ایک مرتبہ کسی علاقے کی ایک مہارانی آپ کی خدمت میں حاضرہوئی اورعرض کی اللہ نے مجھے ہرچیز عطا کررکھی ہے ،دنیاوی دولت اورجاہوحشمت کی کوئی کمی نہیں مگراولاد کی نعمت سے محروم ہوں اودعاکی طالب ہوں تاکہ اللہ مجھ پر رحم کرے اورمیری حاجت روائی کرے
شاہ دولہ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا خاتون تمہاری دعا تو قبول ہوجائے گی مگرایک شرط ہے جو تمہیں قبول نہیں ہوگی عرض کی حضرت مجھے آپ کی ہر شرط منظور ہے فرمایا تو سن تمہارے ہاں اولاد ضرورہوگی بفضل خدامگر اولاد اس خانقاہ کیلئے وقف کرناہوگی یعنی پہلی اولاد سے اس خانقاہ کیلئے دستبردار ہونا ہوگا عورت نے کچھ سوچا پھربولی مجھے یہ شرط منظور ہے آپ نے فرمایا تواب تو گھرچلی جا اوراللہ کی رحمت کا انتظار کر
عورت حاملہ ہوئی دس ماہ کے بعد اللہ نے اس کو ایک لڑکا دیالڑکے کا سرعام بچوں کے سروں سے قدرے چھوٹاتھا اس عورت کے دل میں خیال پیداہوا کہ ایک ہی اولاد پیداہوئی ہے آئندہ کوئی اولاد ہو کہ نہ ہو تو کس طرح یہ اکلوتا بچہ خانقگاہ کے حوالے کروں اسی کشمکش میں کئی روز گزرگئے عورت نے اپنے نوکروں ،عزیزوں اوررشتہ داروں سے مشورہ کیا اورمتفقہ طورپر بچے کی ولادت کو مخفی کھنے کا فیصلہ کیاگیا
حضرت مخدوم لعل شہباز قلندر رحمتہ اللہ علیہ ان اولیا سے ہیں جن کی شہر ت اورعظمت سے ہر خاص وعام آگاہ ہے آپ کا مشرب قلندروانہ تھا سلسلہ فقر میں یہ مقام بہت بلند تصور کیا جاتاہے کیونکہ قلندر کی ولایت کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ذاتی نور سے ہوتاہے اس لئے یہ ولایت کا خصوصی مقام شمار کیا جاتی ہے یہ مرتبہ بہت کم اولیاء کو ملاہے
وطن
حضرت لعل شہباز رحمتہ اللہ علیہ کا وطن مروند تھا مروند کا شہر تبریر سے کچھ فاصلے پر ہے اس شہر کو مہمند بھی کہاجاتاہے یہ شہر بہت قدیم ہے
یہ شہر اس وقت آذربائیجان کادارالخلافہ تھا دریا کے کنارے خوش نما شاداب منظر کے سبب مشہور تھا یاقوت نے لکھا ہے کہ اس شہر کو کردوں نے تخت وتاراج کیا کردوں کے حملہ کے بعد قلعہ بریاد ہوگیا اورشہر کی ہیبت وشان جاتی رہی کرواہل مروند کواپناغلام بناکرلے گئے مدتوں یہاں خاک اڑتی رہی انسان آبادی ہے یہ شہر مدتوں خالی رہا مستونی کودیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ یہ شہر نہررود پرواقع تھا اس نہر کی کافی وسعت تھی نوہاتھ زمین کے اندر بہتی تھی مروندی خوشحالی اوررونق ختم ہوچکی تھی یہ شہر قرمز کے کیڑوں کی وجہ سے مشہور تھاجن سے لالی رنگ تیار ہوتاہے تاریخ میں آتاہے کہ اس شہر کے نواح میں بہت سی بستیاں تھیں
ان حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کا وطن آذربائیجان ہے اورشہر کا صحیح نام مرند ہے مرند سے مروندی ہوجانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے
ولادت
حضرت حافظ محمد عثمان مروندی 573ھ بمطابق 1177 میں مروند میں پیداہوئے
سلسلہ بیعت
آپ حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی علیہ الرحمتہ کے مرید اورخلیفہ تھے اورآ پ کئی بارملتان میں تشریف لائے
مدینہ منورہ
حضرت مخدو م سید حافظ محمد عثمان المرندی رحمتہ اللہ علیہ واردمدینہ منورہ ہوئے قلندران بیاباں کی وضع تھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی والہانہ محبت کایہ حال تھا کہ گریہ تھمتا نہ تھا کبھی اس مقام پر جاکر کھڑے ہوتے جسے باب عبدالمجید کہتے ہیں کبھی باب جبرئیل کے پاس آجاتے کبھی باب السلام پرکھڑے ہوتے روضہ اطہر کودیکھتے اورہوش نہ رہتا عجیب ذوق ہے اورعجیب سوز ہے قلندرسراپا،صدق واخلاص کا پیکراورتعلیم ورضا کی تصویر بنامواجہہ شریف کے اس وقت سامنے ہے
بغداد
حج سے فارغ ہوئے تو بغداد کا سفر اختیار کیا یہاں بڑے بڑے علماء وفضلاموجود تھے جن سے انہیں استفادہ کاموقع ملا سید علی جن کا مزارسیوہن میں انکے مقبرہ کے باہر مسجد کے مغرب میں ہیں بغداد میں آپ سے بیعت ہوئے تھے حضرت محمد عثما المرندی رحمتہ اللہ علیہ ان سے خاص شفقت فرماتے تھے
حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی
حضرت شاہ عبدالل طیف بھٹائی رحمتہ اللہ علیہ سندھ کے اکابراولیا ء سے ہیں اگرچہ سندھ میں بڑے جلیل القدراولیا صوفیاء اورشعرا پیداہوئے لیکن ان سب میں حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کوخاص شہرت اورمقبولیت حاصل ہوئی
ان کی ذات فیوض وبرکات کاسرچشمہ تھی اس کے علاوہ ان کی شاعری اثروتاثیر ،سوز وگدازکا ایک خزینہ ہے
نام ونسب
آپ کانام عبداللطیف آپ کے والد ماجد کانام سید حبیب شاہ تھا آپ کاسلسلہ نسب یہ ہے کہ شاہ عبداللطیف بن سید حبیب شاہ بن سید عبدالقدوس بن سید جمال بن سید عبدالکریم بن سید اللہ آپ کی والدہ درویش مخدوم عربی دیانہ کی صاحبزادی تھیں
ولادت
شاہ عبداللطیف رحمتہ اللہ علیہ کی ولادت با سعادت ہالہ حویلی جوپرگنہ ہالہ کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے 1689 میں ہوئی یہ اورنگ زیب عالمگیری حکومت کازمانہ تھا
تلاش حق
آپ نے اپنی جوانی کے ایام اپنے والد ماجد کے ہمراہ کوٹر ی میں گزارے اورجوانی کا عالم بڑی بے نیازی سے گزارا آپ کو شروع سے ہی ایساماحول ملا جس نے آپ کی فکراورشخصیت کو جلا بخشی ابتداہی سے علم وعرفانسلوک ومعرفت کانور آپ کے چہرے سے ہویداتھا آپ زمانہ شعور ی سے ذکر وفکر میں مصروف رہتے تھے
آپ کو مولا ناروم سے بڑی محبت اوروالہانہ عقیدت تھی آپ کی مثندی کے مطالعہ سے ہی آپ کے اندر تصوف کا شوق پیداہوا اوراسی شوق میں آپ نے سیاحت کا ارادہ کیا آپ لسبیلہ مگران کچھ کاٹھیاواراورجلیل مرسے ہوتے ہوئے ملتان پہنچے اس دور کے بڑے بڑے اولیا سے مستفیض ہوئے مختلف مکاتیب ذکر وفکر کے صوفیہ سے آپ نے ہدایات حاصل کیں ،آپ بڑے ہی صاحب فہم وادراک تھے آپ علم کی لگن اورعمل جستجو کے داعی تھے آپ کا خیال تھا کہ خالق اورمخلوق کی محبت سے عظیم کوئی طاقت نہیں اوراصل مذہب بھی یہی ہے
کہتے ہیں کہ کچھ دن آپ پر عشق مجازی کا بھی غلبہ رہا آخر یہی عشق مجازی عشق حقیقی کا راہبر بنا اورایکدم دل انوارالہی سے روشن ہوگیا اورآپ صحرانوردی چھوڑ کریاد الہی میں مصروف ہوگئے
شادی
ایک مرتبہ کوٹری کے ایک رئیس مرزامقل بیگ کے محل پرڈاکہ پڑا ڈاکوءوں نے مال و زرلوٹنے کے ساتھ مرزامغل کو قتل بھی کردیاساراگھربارتباہ ہوگیا اس کی بیٹی بڑی غم زدہ اور مصیبت آگیں تھی جب شاہ صاحب کو مرزا مغل کے گھرانے کی بربادی اوربدحالی کی خبرہوئی تو آپ اس کی بیٹی کے پاس گئے اوراس کے ساتھ اظہار ہمدردی کے ساتھ اس کوشادی کی بھی پیشکش کی جو اس نے منظور کرلی اس طرح آپ نے ایک ستم رسیدہ اورخزاں زدہ لڑکی سے شادی کرکے ایک خوشگوار فرض ادا کیا آپ خلق خدا پر بذات خود خلیق وشفیق تھے آپ نے کبھی کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچائی تھی شاہانہ شان وشوکت سے ہمیشہ گریزاں رہے اورسادگی کی زندگی کو پسند کیا